تم ایک بہترین امت ہو

تحریر: عثمان غنی

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ
وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِo (آلعمران 110:3)
’’تم ایک بہترین امت ہو، جو لوگوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے ظاہر کی گئی ہو، 
نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘


آج ہمارے معاشرہ میں جو برائیاں ، خرابیاں اور تباہ کاریاں سرکش عفریت کی طرح سر اٹھائے کھڑی ہیں ان کا شمار کرنا ناممکن ہے اور انہوں نے ہمارے فکرو ذہن ، عقل و فہم اور دل و ددماغ کو ایک حیثیت سے ماؤف کرکے زندگی کی ہنگامہ خیزیوں سے کنارہ کش کر دیا ہے اور ہمیں ذلت و رسوائی ، خواری و ناداری کی نہ ٹوٹنے والی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ ہمارے دل و دماغ اس طرح کند ہو چکے ہیں کہ ہمیں معاشرہ میں کسی قسم کی کوئی برائی نظر ہی نہیں آتی ۔ ضلالت و گمراہی میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ حق کو دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی توفیق نہیں ۔ حق کو دیکھنے ، سننے اورسمجھنے سے اس قدر محروم ہیں جیسے ہمارے دل و دماغ اور کانوں پر مہر لگی ہو اورآنکھوں پر پردہ پڑا ہو بلکہ پردہ و مہر تو کیا یہاں تو بات قفل سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اوران کے گناہوں کے درمیان ایک حد مقر ر کی ہے جب بندہ گناہوں کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر مہر کر دی جاتی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے، اب اسے دوبارہ کبھی بھی نیکی کرنے ، حق کو دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی اور اگر وہ ضلالت و گمراہی اور غفلت میں مزید آگے بڑھے تو یہی مہر ’’قفل‘‘میں تبدیل کر دی جاتی ہے کہ اب حق بات ان کے دل و دماغ تک پہنچنے ہی نہیں پاتی ۔ یہی وہ قفل ہے جس کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔

اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا  
’’تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں۔‘‘
یہی قفل آج ہمارے دل ودماغ پر پڑے ہیں کہ ہمیں معاشرہ میں کوئی برائی نظر ہی نہیں آتی ، حق کو دیکھنے ، سننے اور سمجھنے سے محروم ہیں ۔ ضلالت ، گمراہی و جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ خدا سے غافل ،دین و دنیا سے غافل ،یوم حساب سے بے نیاز ، برائیو ں پر برائیاں کیے جا رہے ہیں لیکن کسی کو ذرا خوف نہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے، اپنے رب کے حضور جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اور اپنی دنیاوی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے۔آخر انسان کس چیز پر بھروسہ رکھتا ہے ، اس کے پاس ایسا ہے کیا جو قیامت کے دن اس کو نجات دلائے؟ انسان کے تو اپنے ہاتھ پاؤں اس کے اپنے نہیں ہیں ، وہ اپنے حریف، اپنے مخالف گواہ اپنے ساتھ رکھتا ہے جو قیامت کے دن رب کے حضور اس کے خلاف گواہی دیں گے کہ اس نے یہ یہ عمل کیے۔ کسی کو ذرا احساس نہیں کہ ان کی کتاب زندگی جو مقدس و دیانتدار فرشتے تحریر فرما رہے ہیں ایک دن ان کے ہاتھوں میں تھما دی جائے گی اور کہا جائے گا۔
اِقْرَأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا o
’’لے اپنی کتاب کو پڑھ لے، آج کے دن تو خود ہی اپنا محاسب ( حساب کرنے کو ) کافی ہے۔‘‘
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ
یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آلعمران 104:3)
’’اور تم میں ایک امت ( لوگوں کا ایک منظم گروہ ، جماعت )
ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں ، اچھی باتوں کا حکم دیں
اور بری باتوں سے منع کریں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
پھراللہ رب العزت نے اس ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے معاملہ میں عورتوں کو بھی مردوں کا رفیق قرار دیا اور فرمایا کہ دونوں مل کر یہ عظیم کارنامہ ( پیغمبرانہ وصف ، فریضہ نبوت و خلافت)سر انجام دیں۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ 
وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ
اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ‘ اُوْلٰٓءِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o 
’’ اورمسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیں اور ہر برائی سے منع کریں ، اور نماز قائم رکھیں اور زکوۃ دیں ، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم مانیں ، یہ ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا ، بیشک اللہ غالب ، حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبہ 71:9)
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے اول تو انہیں منع کیا لیکن جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ بھی ان میں غل مل گئے اور کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے ان کے اس عصیان و تعدی کے سبب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی زبان سے ان پر لعنت اتاری۔
ذرا غور کریں اور دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ہم بدکاروں ،موسیقاروں، فنکاروں، اداکاروں اور ان کے ساتھ الفت ، محبت و عقیدت رکھنے والوں (اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی ان پر لعنت ہو، انہوں نے پورے معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے دوزخ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے) اوران ذلیلوں کے دیکھنے ، سننے والوں کے ساتھ اٹھتے ، بیٹھتے اور کھاتے ، پیتے ہیں ۔ آپ خود ہی اپنا محاسبہ کریں اور بتائیں کہ ہمارا کیا حشر ہوگا؟
کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرِ فَعَلُوْہُ لَبِءْسَ مَاکَانُوْا یَفْعَلُوْنَ o
’’بیشک جو آپس میں ایک دوسرے کو بری باتوں سے منع نہیں کرتے 
وہ ضرور بہت ہی برا کام کرتے ہیں۔‘‘ (المائدۃ79:5)
حدیث مبارکہ ہے 
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ لم یستطع فبلسانہ فان
لم یستطع فبقلبہ ولیس وراءَ ذلک حبۃ خردل من الایمان
’’ اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے قوت بازو سے مٹا دے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اسے چاہیے کہ وہ زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو دل میں اس کے خلاف نفرت ضرور پیدا کرے اور اگر یہ بھی نہ کرے تو جان لو کہ اس کے بعد ایمان کا اور کوئی درجہ نہیں ۔‘‘

Comments